Saturday, August 11, 2012

گن کلچر اور امریکی معاشرہ کا سچ


گن کلچر اور امریکی معاشرہ کا سچ

آصف اعظمی 


امریکہ میں صدارتی انتخاب کی تیاریاں چل رہی ہیں۔صدر براک ابامہ بھی اپنے وعدوں اوردعووں کے ساتھ میدان میں ہیں۔ وہ شہر در شہر ، ریاست در ریاست طوفانی دوروں کے ذریعہ ایک بار پھر حالات اپنے موافق کرنے کی جگت میں مصروف ہیں۔ایسے ہی ایک دورہ کے دوران جب صدر ابامہ فلو ریڈا میں ایک سیاسی ریلی سے خطاب کر رہے تھے، خبر آئی کہ امریکی ریاست کولو راڈو کے شہر آرورا کے ایک سنیما گھر میںایک مشتبہ شخص کے ذریعہ فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں بارہ افراد ہلاک اور اٹھاون زخمی ہوگئے ہیں۔ صدر نے تقریر مختصر کی اور کہا کہ سیاست کرنے کے لئے اور بہت سے دن آئیں گے، یہ دن دعا اور غور و فکر کا ہے۔ پھر تو خبروں کی جیسے جھڑی سے لگ گئی۔ سوگ میںتما م سرکاری عمارتوںپر لگے امریکی پرچم جھکا دئے گئے۔ صدر ابامہ اور ان حریف مٹ رو منی نے سیاسی سرگرمیاں موخر کردیں۔ایک مشتبہ شخص جیمس ہومز رائفل کے ساتھ پکڑا گیا۔ پھر اس کے گھر سے بڑی مقدار میں اسلحہ و بارود برآمد ہوا۔ عدالت نے اسے کسٹڈی میں بھیج دیا۔ ان خبروں کے بیچ بات ایک ہی اہم ہے۔ وہ بات جودنیا کے آئیڈیل ، سپر پاور اور نیو ولڈ آرڈر کے خالق امریکہ کے صدر کے زبان سے ادا ہوئی ہے کہ یہ دن دعا اورغور وخوض کا ہے۔ 
غوروفکر کا سلسلہ شروع بھی ہوگیا ہے ۔ حسن مجتبیٰ نے بی بی سی اردو پورٹل پر ©”امریکہ میں ’گن کلچر‘پھرزیر بحث“ کے عنوان سے اپنے مضمون میں تفصیل سے گفتگو کی ہے کہ کس طرح ہر بالغ امریکی شہری کو ہتھیار رکھنے اور محض اپنے ڈرائیونگ لائسنس یا ریاستی شناختی کارڈ دکھا کر کسی بھی اسلحہ کی دوکان سے بندوق خریدنے کا حق حاصل ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”امریکہ میں گن لابی یا گن کنٹرول لابی یا اینٹی گن لابی امریکی سیاست اور اقتدار میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا رہی ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ بہت سے ڈیموکریٹ کنٹرول کے حامی ہیں جب کہ رپبلکنز کی بڑی تعداد گن لابی کے حق میں ہوتی ہے۔ یہاں امریکی سیاست پر با اثر نیشنل رائفل ایسوسی ایشن بھی ہے اور کئی امریکی شہروں میں قومی گن شو بھی منعقد ہوتے ہیں۔ جنہیں دیکھنے کے لئے مرد ہوں کہ خواتین جوق در جوق آتے ہیں۔ لیکن ڈیموکریٹس ہوں کہ رپبلکنز، تقریباً ڈھائی سو سال قبل آئین میں کی گئی دوسری ترمیم کے تحت امریکی شہریوں کو ملنے والا ایسا حق مانتے ہیں جس کے تحت ہر بالغ امریکی کو اپنے دفاع میں بندوق رکھنے کا حق حاصل ہے۔ “ اب ایسے میںکتنا بھی غور کر لیا جائے اور میڈیا بحث ومباحثہ کے کتنے ہی دروازے کیوں نہ کھول لے، نتیجہ تو صفر ہی آنا ہے، کیونکہ ڈیموکریٹس اور رپبلکنز دونوں ہتھیار رکھنے کے حق کو لے کر ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ وجہ امریکی سماج اور امریکی عوام ہیں۔ وہ ہتھیاروں سے پیار کرتے ہیں ، چنانچہ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ امریکہ میں جتنی بندوقیں فوج کے پاس ہیں ، اس سے کہیں زیادہ عا م لوگوں کے گھروں میں موجود ہیں۔ حسن مجتبیٰ کے مذکورہ مضمون سے ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو: ”میرے ایک اینتھروپولوجسٹ دوست کے مطابق ©’امریکی ہتھیاروں سے عشق کرتے ہیں‘اور یہی بات آپ کو کئی امریکی فخر سے بتائیں گے۔یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ امریکہ دنیا میں بندوق کا کلچر رکھنے والے ملکوں میں سب سے آگے ہے اور اس کی تاریخ اور قومی زندگی میں بندوق ایک جزو لاینفک رہا ہے۔۔۔۔امریکی رائفل مین کا ایک ہیر و والا’ماچو مین‘ تصور امریکی زندگیوں اور لوک گیتوں میں بھی موجود ہے۔۔۔۔حال ہی میں برطانوی اخبار گارجین نے دنیا میں آتشیں اسلحہ رکھنے والے ملکوں کا ایک نقشہ شائع کیا ہے جس میں امریکہ کو اول نمبر پر بتایا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اٹھاسی اعشاریہ آٹھ فیصد افراد بندوق سے مارے جانے کے خطرے کی زد میں ہیں ۔“ 
یہ عجیب صورت حال ہے کہ آئے دن امریکہ میںعام شہریوں کے ہاتھوں تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، لیکن گرفتاریوں، بیان بازیوں اور بحث و مباحثہ سے آگے بات بڑھتی ہی نہیں ہے اورسارا معاملہ ایک مخبوط الحواس کی جنونی کاروائی کے خانہ میں فٹ کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ حالیہ واقعہ کے بعد بھی جب ایک امریکی میگزین نے عام شہریوں میںسروے کرایا تو زیادہ تر لوگ ہتھیار رکھنے کے حق سے دستبردار ہونے کے حق میںنہیں تھے۔بلکہ بعض نے تو پلٹ کر کچھ اس قسم کا جواب دیا کہ” اگر میں وہاں ہوتا تو قاتل کو پہلے ہی مار گراتا۔ فی الواقع اگر کسی کے پاس بھی بندوق ہوتی تو ملزم کو اتنا بڑا جانی نقصان کرنے سے روکا جا سکتا تھا۔“ صدر ابامہ کے حریف امیدوار مٹ رومنی خودہتھیار رکھنے کاحق دہندہ دوسری ترمیم کو لے کر کچھ سننے کو آمادہ نہیں ہیں۔ و ہ کہتے ہیں کہ مجھے آج بھی پورا یقین ہے کہ دوسری ترمیم حفاظت اور مدافعت کے نقطہ نظر سے بالکل درست ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ نئے قوانین اس قسم کے سانحے روک پانے میں کوئی خاص کامیابی حاصل کر پائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرورا، کولو راڈو میں پہلے سے کئی سخت قوانین موجود ہیں۔ ہمارا چیلنج قانون نہیں، بلکہ وہ افراد ہیںجو حقائق سے بے بہرہ ہو کرایسے عجیب و غریب کام کرتے ہیں جن کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ 
غور و فکر کی تجویز صدر ابامہ کی جانب سے آئی ہے اور رائیں مٹ رومنی پیش کر رہے ہیں۔ صدر اب بھی ابامہ صاحب ہیں اور آئندہ کے لئے بھی ان کو نیک خواہشات پیش کی جانی چاہئے۔ لیکن مٹ رومنی کی بات میں دم ضرور ہے۔ بات گن لابی اور اینٹی گن لابی کی موافقت یا مخالفت کی نہیں ہے۔ بات تو دراصل اس سماج کی ہے جہاں تشدد نام کی ایک تہذیب کا راج قائم ہو چکا ہے۔ جہاں ماں اپنی پانچ سال کی بچی کو حقیقی رائفل کو نہارتے دیکھ کہتی ہے کہ بٹیا یہ رائفل تمہاری عمر کے لحاظ سے بڑی ہے ۔ابھی تم چھوٹی بندوق پر گزارا کر لو۔ جہاں گھروں کے دروازوں پر کتے سے ہوشیار کی جگہ ، مالک سے ہوشیار رہنے کی دھمکی کچھ انداز میں لکھی ہوتی ہے کہ ”خبردار، بلا اجازت داخل ہوئے تو گولی مار دی جائے گی“۔آخر یہ کیسے سنسکار ہیں کہ 1997 سے 2008 تک امریکی درسگاہوں میں فائرنگ اور تشدد کے بیسوں واقعات میں سو سے زائد ا فراد کو اپنی جانیں گنوانی پڑتی ہیں۔ ورجینایونیورسٹی میں اسی قسم کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجہ میں بتیس لوگوں کی دردناک موت کو یاد کر کے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ تعلیمی اداروں کی فیگرس ہیں ورنہ تو ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 2000سے 2009 تک 298,000 اموات یعنی سالانہ تقریباً 30,000 اموات گن فائرنگ سے ہوئی ہیں۔ فروری 2009 میں محض بارہ دن کے وقفہ میں فائرنگ سے شکاگو کے شاپنگ مال میں پانچ خواتین کی ہلاکت اور الینوانے یونیورسٹی میں پانچ طلباءاور ایک استاد کی اموات نے امریکی معاشرہ کی چکا چوند کے پیچھے کے سچ کو دنیا کے سامنے پوری طرح بے نقاب کر دیا تھا۔ 
امریکی معاشرہ کا سچ بندوق رکھنے اوراس کے استعمال میں نہیں، بلکہ اس تہذیبی انتشار اورسماجی اقدار کے بکھراﺅمیں پوشیدہ ہے جو ہابس اور روسو کے افکار کے درمیان کا فرق ہے۔ امریکی سماج کا سچ اس تفاوت میں بھی پوشیدہ ہے جو اسے ایک طرف تو دنیا بھر کے لئے دوسری جنگ عظیم اور سوویت یونین کے بکھراﺅ کے بعد نیو ولڈ آرڈر اور بہترین مواقع والے ملک کی حیثیت سے شناخت فراہم کرتا رہا تو دوسری طرف خود اس کے عوام کے لئے مواقع تو دور ، اتنے مسائل کھڑے کر دئے ہیں کہ وہ ”وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو“ جیسی مہم چلانے پر مجبور ہیں۔ امیر و غریب کے درمیان وسیع ہوتی خلیج کے چلتے عوام امیروں سے نفرت تک کرنے لگے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح 9 فیصد سے زائد ہے جو نوجوانوں میں پچیس فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ تعلیم اور علاج عام آدمی کی پہونچ سے دور ہوتا جارہا ہے۔امریکی معاملات کے جانکار ایک مبصر کے لفظوں میں” عوام کے معیار زندگی میںمسلسل تنزلی ناقابل برداشت حد تک پہونچ گئی اور ’بہترین مواقع کی سرزمین‘غریب لوگوں کے رہنے کے لئے تلخ تر ہوگئی۔“پے در پے تکالیف،نت نئی پریشانیاں۔ کہیں نوکری چھن جانے کا غم تو کہیں بے گھری اور دربدری کا خوف۔ کہیں زندگی کی معمولی معمولی سہولیات سے محرومی کا احساس توکہیںوعدوں کا ایفا نہ کر پانے والی حکومتوں کے خلاف غصہ ۔ جب ذہن اس حد تک پریشاں ہوں اور دلوں پر اس قدر بوجھ۔ اوپر تلے امید کی کوئی کرن بھی دکھائی نہ دے تو مخبوط الحواس ہو جانا، فرسٹریشن کا شکار ہوجانا عین ممکن ہے۔پھر نظریاتی بنیاد پر جو خلا امریکیوں کے درمیان پایا جاتا ہے وہ معاملہ کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام جو دولت اور منافع کی بنیادوں پر کھڑا ہے، اقدار اور بہبود جیسے الفاظ سے عاری ہونے کی وجہ عام شہریوں کے لئے کوئی نظریاتی کشش نہیں رکھتا۔ چنانچہ بسا اوقات وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے چھٹکارہ پانے کے لئے خود کشی کا سہار لیتا ہے تو کبھی ہالی ووڈ کی تصوراتی دنیا میںپہنچ کر خود ہی کسی سپر ہیرو یا ڈان (جو بھی نظریہ کی عدم موجودگی میں اس کے لئے کشش کا حامل ہو) کی طرح حالات کو اپنے موافق کرنے میں صحیح غلط سبھی حدوں سے گزر جاتا ہے۔ 
بندوقوں کے علاج کی نہیں ، انسانوں کے علاج کی ضرورت ہے۔یوںبھی کسی نے سچ کہا ہے کہ بندوقیں خود بخود نہیں چلتیں انہیں انسان چلاتا ہے۔بہتر سماج کی تشکیل کے لئے نظریہ اور اقدار کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کا موڈرنائزیشن اور انڈسٹریلائزیشن یقینا قابل ستائش ہے۔اس موڈرنائزیشن میں جتنا وقت لگا ہے، اس سے کم وقت میں سماجی اقدار اور نظریہ ¿ حیات کی بنیادیں تیار کی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت امریکہ میں سوشلزم اور اسلام دونوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔ مستقبل کے دامن میں کیا ہوگا نہیں معلوم، لیکن یہ امید ضرور کی جانی چاہئے کہ جلد ہی امریکی سماج میں اقدار اور نظریہ سے معمور تہذیب کی دور دورہ ہوگا۔ 
---------------------------------------------------------------------------------
Asif Azmi 
36, Second Floor, Jaipuria Encalve, Kaushambi, Ghaziabad-201010 (UP) Mob: 9810114484 asifazmi@hotmail.com ؑ 

No comments:

Post a Comment