کیسا نظام الہی، کہاں کی اسلامی حکومت
آصف اعظمی
پاکستان بدامنی اور عدم استحکام کی جس راہ پر جا نکلا ہے ، اس سے واپسی کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ جب عوام کی درمیان تفرقہ، مذہبی منافرت اور مسلکی تشدد اس قدر جڑیں جما چکا ہو تو بھلا کیوں کر کوئی امید کی جاسکتی ہے۔اسلام نے اعتدال، میانہ روی ، رواداری، صلح و مصالحت کا راستہ دکھایا تھا ، مگر مذہبی شدت پسندوں نے جو طریق اپنایا وہ جہالت، نخوت اورروحِ اسلام کے منافی ہے۔گزشتہ ہفتہ کوئٹہ میں ایک مخصوص مسلک کے افراد کو نشانہ بنا کر کئے گئے بم دھماکوں اور خود کش حملوں نے درمند دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والوں کی برداشت جواب دینے لگی ہے، کیونکہ مارے جانے والوں میں اکثریت ہزارہ برادری کے لوگوں کی تھی جو اپنے مخصوص رنگ ونسل اور عقیدہ کے چلتے پہلے سے ہی کافی تعصب کا شکار رہے ہیں۔وہ اوروں سے کافی الگ ، باہر ی دنیا سے دور اورامن پسند واقع ہوئے ہیں۔ پھر بھی مسلکی انانیت اور دہشت کے ہرکارے پچھلے دس بارہ برسوں میں اس برادری کے زائد از دو ہزار افراد کو نشانہ بنا چکے ہیں۔
گروہی عصبیت ، تفریق اوراحساس برتری انسانی خو میں داخل ہے۔ تاہم، رسول عربی کے ماننے والوں میں یہ بیماریاں غیر مطلوب تھیں ۔ اس کا کیا کیجئے کہ رسول عربی کی وفات کے سو سال کے اندر ہی ان کے ماننے والوں کے درمیان اس قدراختلاف اور تفرقہ بازی پھوٹ نکلی کہ جس کا سدباب آج تک نہیں ہو سکا ہے۔ یہ درست ہے کہ مجتہدین اور مصلحین نے اس خلا کو بساط بھر بھرنے کی کوشش ضرور کی مگر جو کمزوری اس قدر اندر تک جاں پکڑ چکی ہو اس کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہوتا ہے۔بلکہ اس کمزوری کا فائدہ اوروں نے ضرور اٹھایا اوروقتا فوقتاً اس آگ کو ہوا دے کر اپنے مطالب سیدھے کیے ہیں۔
بر صغیرخصوصاًموجودہ پاکستانی علاقہ جات جیسے انبالہ ، روہتک، کرنال، پٹیالہ اور حصار وغیرہ مسلکی تفرقہ، مناظرہ بازی اورمذہبی منافرت کی آماجگاہ رہے ہیں۔ آزادی کے بعد جب پاکستان کو اسلامی مملکت کا نام دیا جانے لگا تبھی یہ خدشہ پیدا ہو تھا کہ یہ مملکت کس اسلامی عقیدہ کو فروغ دے گی۔ اسلام کا تو مملکتی امور سے دور دور کا واسطہ نہیں رہا، مگر عوام میں اپنے مسلک کو برتر ثابت کرنے کی ایک ہوڑ سی لگ گئی۔ ایک اندازہ کے مطابق بیسویں صدی کے نصف آخر میں پاکستان میں مسلکی تشدد کے پندرہ سو واقعات ہوئے جن میں ہزاروں افراد کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں۔ معاملہ یہیں تک رہتا تب بھی ٹھیک تھا۔ بات تو تب خراب ہوئی جب باہری طاقتوں نے اس میں دخل دینا شروع کردیا۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں جب زکوٰۃ وہ عشرے کی حصولیابی حکومت کی ذمہ داری ٹھہرائی گئی تو ایک مسلک کے لوگوں نے اس کی شدید مخالفت کی کیوں کہ یہ ان کے عقیدہ کی رو سے واجب نہ تھا۔ملک بھر میں زبردست احتجاج اور پارلیمنٹ کا گھیراؤ کے بعد ایران اور بالخصوص امام خمینی کی مصالحت سے حکومت کو آرڈنینس میں تبدیلی کرنی پڑی۔ اس صورت حال نے دوسرے مسالک کو بھی اپنی برتری ثابت کرنے اور ’’سواد اعظم ‘‘ کے نام سے اپنی باتیں منوانے کا حوصلہ مل گیا۔دوسری طرف سعودی عرب کو محسوس ہوا کہ پاکستان میں ایران کا اثرو نفوذ بڑھ رہا ہے ، اس لئے اس نے بھی مخالف گروہ کی حوصلہ افزائی شروع کردی۔ اس کمزوری کوبالواسطہ تپانے اور جلا بخشنے کا کام کچھ عالمی طاقتوں نے بھی کیا جن کا مفاد افغانستان سے سابق سوویت یونین کے انخلاء میں پوشیدہ تھا۔پھر کیا تھا، اب تک مناظروں، پمفلٹوں اور کتابچوں کے ذریعہ لڑی جارہی مسلکی جنگ کو بارودی جنگ میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگی۔
یہ سارا جھگڑا دین سے زیادہ اقتداء اور عوامی پکڑ کا تھا ۔ ایک مسلک کی نوجوان تنظیم نے اگر اجتماعی قوت کے بل پر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا تو دوسرے مسالک کو اس سے انسپریشن لینی چاہئے تھی ، نہ کہ وہ بغض و عناد کا شکار ہوکر اس اجتماعی قوت کے خلاف نبرد آزما ہوجاتے ۔ سواد اعظم اہل سنت، انجمن سپاہ صحابہ وغیرہ اسی ردعمل کی پیداوار تھیں جن کے مقاصد میں ایک مقصد پاکستان کو سنّی اسٹیٹ بنا نا تھا۔ اسی کی دہائی میںیہ عالم تھا کہ شیعہ کنونشن، سپاہ صحابہ جیسی تنظیموں کی کارکردگی کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا تھا اور پنجاب، جھنگ، کوئٹہ وغیرہ میں معصوم جانوں کا اتلاف روزانہ کا معمول بن چکا تھا۔ اہل حدیث علماء علامہ احسان الہی ظہیراورمولانا حبیب یزدانی، فقہ جعفریہ کے مشہور عالم علامہ عارف الحینی اور سپاہ صحابہ کے مولانا حق نواز جھنگوی کو اسی دوران پر تشدد حملوں میں ہلاک کیا گیا۔ لیکن نوے کی دہائی آتے آتے مسلکی انتہا پسندی نے باقاعدہ دہشت گردی کی صورت اختیار کر لی اور اس کے نتیجہ میں مسلکی کارکنان ہی نہیں، عام افراد بھی نشانہ بنائے جانے لگے ۔ یہ بات لطیفہ نہ رہی کہ ڈاکٹر کے بدلے ڈاکٹر، وکیل کے بدلے وکیل اور تاجر کے بدلے تاجر مارے گئے۔ پھر کیا ایس پی، کیا صوبائی سکریٹری، کیا جیویشیل مجسٹریٹ سبھی جدید ہتھیارو راکٹ لانچر بدست مسلکی دہشت گردوں کا بنے۔
عالمی سطح پر امریکہ و اتحادیوں کے عراق بعد ازیں افغانستان پر حملوں کے بعد حالات تھوڑے بدلے ضرور تھے، جب طالبان اوردیگر افغانی جنگجوؤں کو نہ صرف بڑی طاقتوں کی اصل چالوں کا نہ صرف پتہ لگا تھا بلکہ ان کے ظلم و جبر کا بھی سامنا کرنا پڑاتھا۔ لیکن یہ کیفیت عارضی ہی ثابت ہوئی۔ جن دلوں میں برسوں کی نفرت کا زہر بھرا ہوا اور منہ کو خون لگا ہوا وہ بھلا کیوں کر راہ راست پر آنے والے۔افغان جہاد سے وابستہ افغانی اور پاکستانی تنظیموں میں دہشت پسندی اس قدر جڑیں جما چکی ہے کہ ان کی کمائی ہی ہتھیاروں کی اسمگلنگ، منشیات کی تجارت اور اغوا برائے تاوان سے ہوتی ہے اور انہیں یہ سب کچھ کرتے ہوئے اسلام کی تعلیمات مطلق یاد نہیں رہتی ہیں۔ اس معاملہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں جہاں جہاں تیل کے ذخائر ہیں وہاں عام طور پر ایک مسلک کے ماننے والے زیادہ بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ تیسرا پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد امریکی مفادات کی نگرانی کون کرے۔ وہ کرزئی ہرگز نہیں ہوسکتے جو خود امریکی فوج کے زیر سایہ حکومت چلارہے تھے۔ چنانچہ طالبان پر امریکہ کی عنایات بڑھتی جارہی ہیں۔ چوتھا پہلو یہ کہ افغانستان میں ہندوستانی اثرو نفوذ پاکستان کو بالکل نہیں بھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی اعلان کیا ہے کہ اگر حکیم اللہ محسود تشد د کا راستہ چھوڑکر ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں تو انہیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ پنے اپنے مفادات کے چلتے دہشت پسند جماعتوں اور اسلام کی آڑ میں حکومت کرنے اور معیشت چمکانے کا خواب دیکھنے والوں کی یوں ہی حوصلہ افزائی کی جائے گی تو نتائج کی سنگینی کا محض اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ پھر ایسے افراد اپنا دبدبہ قائم رکھنے اور اپنا وزن بڑھانے کے لئے خارج از اسلام فتاویٰ سے لے کر انسانی جانوں کی ہلاکت تک ہر صحیح غلط کام کو روا رکھتے ہیں۔
پاکستان میں جاری مسلکی تشدد کی اس آگ کو اگر بجھا نا ہے تو وہاں کے لبرل افراد،اسلام کی صحیح سوچ رکھنے والے علمائے کرام اور اسلامی تنظیموں بشمول جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اور منہاج قرآن سے ہٹ کر اسمبلیوں کی تحلیل کا مطالبہ کرنے والے علامہ القادری جیسے لوگوں کو سیاست کا راستہ چھوڑ کر ذہن سازی کا راستہ اپنانا ہوگا۔ اقامت دین یا اسلامی اسٹیٹ پہلے ذہنوں میں قائم ہوگاتبھی زمین پر اترسکتا ہے۔ ورنہ اس کی حالت موجودہ پاکستان سے بھی بدتر ہوگی اور لعنت ملامت ہی اس کے حصہ میں آئے گی۔ دوسری جانب پاکستانی حکومت اور فوج کو متشد د اور متحارب جماعتوں اور افراد خواہ وہ کسی بھی مسلک کے ماننے والے ہوں سے سختی سے نمٹنا ہوگا۔ قانون کی حکمرانی ، امن اور استحکام سے ملک چلتا ہے ، جذبات سے نہیں۔محض ہند دشمنی میں ایسے افراد کو شہہ دینا اور انہیں ڈھیل دئے رہنا خود پاکستان کے حق میں نہیں۔اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان دہشت گرد افراد اور تنظیموں کے خون کو ہمیشہ گرمائے رکھنے سے جنگ کی حالت میں مدد ملے تو انہیں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ امن کی ایک مہلت اور فراغت میں یہی خون پاکستان پر قہر بن کر ٹوٹے گا اوراس کے نتیجہ میں پاکستان کے تارو پود بھی بکھر جائیں گے۔